آزادی سے جینے کی خواہش رکھنے والی فوزیہ عظیم ، قندیل بلوچ کیسے بنی؟
شاہ صدرودین کے رہائشی محمد عظیم کی بیٹی
یہ کہانی ہے جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہونے والی فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کی۔جسے زمانے نے شہرت کیساتھ غیرت کی موت بھی دی۔وہ ایک غریب گھرانے سے وابستہ تھیں جہاں ان کے چھ بھائی اورسات بہنیں ہیں ۔ (قندیل کی چھوٹی بہن) بتاتی ہیں کہ ان کی بہن فوزیہ عظیم ان کیساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی جہاں لڑکیوں کو تعلیم دینا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ،لیکن فوزیہ کوپڑھنے کا شوق اس وقت ہوا جس روز ان کے بھائی آرمی میں گئے اور فوزیہ کو بھی آرمی میں جانے کا شوق پید اہوا۔لیکن ان کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ سکول جائیں، مگر اماں کے خیالات ان کے برعکس تھے۔ فوزیہ کو شوبز میں دلچپسی اس وقت ہوئی جب ان کے گھر پہلی بار ہمارا بھائی ٹی وی لیکرآیا اورڈراموں کو دیکھ کرفوزیہ میں شوبز کا شوق پیدا ہوا، لیکن اماں ابا نے سترہ سال کی عمر میں اس کی شادی کردی۔،فوزیہ کی یہ شادی ایک سال ہی چل سکی، اس دوران اس کا ایک بیٹا بھی ہوا۔۔مگر وہ اس شادی سے خوش نہیں تھی اور شکایات کرتی تھی کہ اس کا شوہر اس پر تشدد کرتا ہے اور پھر وہ چھوڑ کر چلی گئی اور کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ وہ کہاں گئی ۔
فوزیہ عظیم نے 2012میں اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد اپنا نام قندیل بلوچ رکھا اورپھر شوبز کی انڈسٹری سے وابستہ ہوگئیں۔۔
پھر تین سال بعد اس نے والد سے رابطہ کیا اور رونے لگی کہ اسے شناختی کارڈ بنوا دیں وہ کام کرنا چاہتی ہے،کیونکہ وہ بطور بس ہوسٹس بھی کام کرچکی تھی لیکن اب وہ کچھ نیا کرنا چاہتی تھی پھر اسے ٹی وی کے ڈراموں میں دیکھا،ہم خوش تھے کہ وہ کچھ غلط کام نہیں کرتی ۔ اور وہ پہلے سے زیادہ پیاری ہو گئی تھی۔
رقص اور جسم کی نمائش کی سے سوشل میڈیا پر پذیرائی تو ملی ،لیکن محبت کیساتھ نفرت بھی۔
قندیل بلوچ کو 2014 میں اُس وقت شہرت ملی جب ان کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی، جس میں وہ سوال کرتی ہوئی نظر آئیں،'میں کیسی لگ رہی ہوں؟پھرقندیل بلوچ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ایسے لباس کیساتھ سامنے آئیں جوان کی پذیرائی اور تنقید کا سبب بنا۔سوشل میڈیا اسپیسز سے وہ فیس بک اورانسٹاگرام پر وائریل تو ہورہیں تھیں لیکن معاشرے کے ایک خاص طبقے میں متنازعہ بھی بن رہیں تھیں۔ پاکستان کے کرکٹ میچ کی جیت میں سٹرپ ڈانس سے لیکر عمران خان سے شادی تک کے مختلف وڈیو کلپ بھی متنازعہ رہے۔
صحافی مدیحہ طاہر کہتی ہیں کہ قندیل بلوچ کو پاکستان کے میڈیا میں ہالی ووڈ سے وابستہ کے ایک کریکٹر( کم کردیشین )سے تشبح دی جاتی تھی حالانکہ بظاہر وہ ایسی نہیں تھیں ۔ کیونکہ قندیل کی وجہ شہرت کا تعلق ان کی دولت سےنہیں ہے،وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر ان کے کچھ ایسے کلپس متنازعہ رہے جس سے معاشرے میں کچھ نئے سوالات نے جنم لیا کیونکہ پاکستان میں عورت اور مذہب کے معمالے میں سنجیدگی کا پیمانہ دیگر ممالک سے مختلف ہے اورپھر وہی محبت قندیل بلوچ سے نفرت کی شکل میں سامنے ائی ۔
مفتی قوی اور قندیل بلوچ۔
صحافی اسام احمد کہتے ہیں کہ قندیل بلوچ جب متنازعہ رہیں تو ان کی پہلی بار ایک ٹی وی شو میں مفتی قوی سے ملاقات ہوئی جو اس وقت رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن تھے ، اس پروگرام میں مفتی قوی نے قندیل بلوچ کی سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹوں پر تنقید کی ۔ اور پھر وہیں قندیل بلوچ نے مفتی قوی کا موبائل نمبر لیکر انہیں ملاقات کے لیے بلایا ار2016 میں رمضان المبارک سے دو روز قبل ان کی اسلام باد میں ملاقات ہوئی ۔اور یہ ملاقات معاشرے میں بونچھال بن کر ابھری تو یوں ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔کیونکہ اس ملاقات کی تصاویراور وڈیو سے مذہبی حلقوں میں مولانا مفتی قوی بھی تنقید کا نشانہ بنے جس کے بعد انہیں حکومتی سطح پر بنائی گئی کمیٹی سے نکال دیا گیا تھااور پھر قندیل بلوچ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایاکہ مفتی قوی سے ملاقات کہ بعد انہیں قتل کیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔
قندیل بلوچ کی موت۔
قندیل بولچ کی والدہ انور بی بی کہتی ہیں کہ جب میڈیا پراسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں تو اس نے گھر رابطہ کیا ، کیونکہ قندیل اب سکون کی تلاش میں تھی، اور جب وہ ائیر پورٹ سے واپس گھر آئی تو اس نے نقاب کیا ہوا تھا اور وہ ڈری ہوئی تھی تاکہ کسی پتہ نہ چلے کہ وہ قندیل بولچ ہے تو میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی کہ کچھ نہیں ہوگا اب تم گھر میں ہو لیکن وہ کہتی تھی کہ نہیں ابھی بھی اسے خطرہ ہے اور جب وہ صبح اٹھ کر قندیل کے کمرے میں گئی اور آواز دی کہ قندیل بیٹا اٹھو ناشتہ کرو لیکن وہ نہیں اٹھی اور جب اس کے اوپر سے کپڑا اٹھایا تو دیکھ کرمیں چیخی اور چلائی ، کیونکہ قندیل اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔ قندیل بلوچ کے بھائی نے اعتراف کیا اس نے غیرت کے نام پر چھریوں کے وار کرکے اپنی بہن کو قتل کردیا تھا ۔ کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر وڈیو لگا کر بلوچ قبیلے کو بدنام کررہی تھی
سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی مہم
ڈیجٹل راٹس کمیشن کی چئیرپرسن نگہت داد کہتی ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ نے ہمیں کچھ بھی بیان کرنے کے لیے آزادی ضرور دی ہے اور خاص کر ان لوگوں کو جو پہلے ایسی کسی مہم کا حصہ نہ رہے ہوں ۔لیکن پاکستان میں خاتون کیسے ایک ایسی سپیس کو جنم دے جس کو یہ معاشرہ قبول نہیں کرتا ۔ کیونکہ آزادی کو غلامی کی مجموعی معاشرتی سوچ سے ختم کرنے کے لیے جدو جہد اور اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
Comments
Post a Comment